ملک ریاض کراچی میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت تعمیر کریں گے

ملک ریاض: پاکستان میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت تعمیر کریں گے




  •  ملک ریاض آف بحریہ ٹاون کے بارے میں
    ایک صحافی نے اپنے کالم میں چند ہفتے قبل  کچھ اس طرح لکھا،، پہلے میں نے دھوتی کُرتا پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص کو ایک دکان سے قلفی لے کر کھاتے دیکھا۔ وہ قلفی اسے کچھ پسند نہیں آئی لیکن پندرہ روپے کی قلفی پھینکنے کی بجائے اس نے اپنے پیچھے کھڑے گن مین کو پکڑا دی۔
    وہ شخص بحریہ ٹاؤن کا مالک ملک ریاض حسین تھے جن پر الزام ہے کہ وہ لوگوں کو کروڑوں روپے بطور ’تحفہ‘ ہی دے دیتے ہیں۔ نمائندہ بی بی سی  
    تریسٹھ سالہ ملک ریاض ایک ٹھیکے دار کے گھر پیدا ہوئے اور والد کے کاروبار میں خسارے کے بعد میٹرک پاس ملک ریاض حسین کو کلرک کی نوکری کرنا پڑی۔ بعد میں فوج میں ایک نچلے درجے کے ٹھیکے دار کی حثیت سے کاروبار کیا۔
    یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ وہ اپنے تقریباً ہر انٹرویو میں اپنے اس دور کی تکالیف ضرور بیان کرتے ہیں۔ ان تکالیف میں بچی کے علاج کے لیے گھر کے برتن فروخت کرنا، خود قلعی یعنی سفیدیاں کرنا اور سڑکوں پر تارکول لگانا جیسے واقعات شامل ہیں۔ وہ اپنی مرحوم بیوی کی اس حسرت کا بھی اظہار کرتے ہیں جو ایک پانچ مرلے کی مالکانہ حقوق پر مشتمل تھی۔
    پاکستان میں نوے کی دہائی میں جب جمہوری حکومتیں گرائی جارہی تھیں تب ملک ریاض نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کاروبار میں فوج کا ساتھ بہت سود مند ثابت ہوگا۔

    اب اسے ذہانت کہا جائے یا مخالفین کی رائے میں چالاکی یا پھر دوستوں کی رائے میں اللہ کا کرم جیسے مثبت الفاظ استعمال کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معمولی تعلیم اور دیہاتی حلیے والے اس آدمی نے بڑے بڑے بیورو کریٹوں اور فوجی افسروں کو پاکستان میں تعمیراتی میدان میں عظیم ترین کے منصوبے پیش کیے۔
    ملک ریاض کے خلاف مقدمات کا پیروی کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں ملک ریاض اور اس وقت کے نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری کے ساتھ معاہدوں کی تصدیق شدہ نقول عدالت میں داخل کرائی ہیں۔
    معروف عسکری تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے زمینیں خریدنے میں ملک ریاض کی بے حد مدد کی ہے اور اس کے عوض ان افسروں کو طے شدہ حصہ ملا۔ اگر چے کہ یہ صرف کتابوں کا حصہ ہے اور ظاہری بات ہے مخالفین کی رائے مگر اس کے باجو د یہ بات حقیقت ہے اور تلخ سچائی پر مبنی ہے کہ ملک ریاض کا بحیریہ ٹاون
    کامیابی کا پہلا بڑا قدم وہ تھا جب نیوی نے راولپنڈی کے ہاؤسنگ پراجیکٹ سے توہاتھ کھینچ لیا لیکن وہ اپنا نام اس رہائشی سکیم سے واپس نہ لے سکی۔
    ذہین ملک ریاض ایک کے بعد ایک منصوبے تشکیل دیتے چلے گئے ۔ پاکستانی عوام کی اکثریت مخالفین کی جانب سے تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود ملک ریاض پر اس قدر بھروسہ کرتی ہے کہ آج بھی بحریہ ٹاون کی جانب سے کسی بھی ہاؤسنگ اسکیم کے کسی بھی فیز یا سیکٹر کا اعلان اگر ایسی صورت میں کیا جائے کہ اس اسکیم کا اگرزمین پر وجود ہو یا نہ ہو نہ کوئی نقشہ سامنے لایا جائے لیکن اس کے باوجود صرف درخواست فارم خریدنے کے لیے لوگ دیوانوں کی طرح لائن میں لگتے دھکم پیل کرتے اور لاٹھی چارج اور آنسوگیس کے باوجود ہٹنے کو تیار نہ ہوتے ہیں یہ ہی ملک ریاض کی عمر بھر کی کمائی ہے اسے ساکھ کہہ لیں یا عوام کا اعتبار یا ملک ریاض کی محنت و جدوجہد جس کے نتیجے میں اس کمائی میں کہیں بھی کمی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

     اپنی بے لوث محنت و جدوجہد کے بعد پاکستان کا ایک معمولی فرد  پندرہ سے بیس سال کے عرصے میں کھرب پتی بن چکا ہے۔
    اس عرصے میں ملک ریاض پر مخالفین کی جانب سے مختلف مقدمات درج ہوئے جن میں غریب اور کم زور لوگوں کو قتل کرانے، ان کی زمینوں پر قبضے کرنے، لڑائی جھگڑے، دھوکہ دہی سمیت بہت سے مقدمات ہیں جو مختلف عدالتوں میں زیر سماعت اور بہت سے مقدمات سے وہ بری ہوچکے ہیں۔
    وہ ملک ریاض جو معمولی سا ٹھیکہ لینے کے لیے دو دو روز تک کسی کیپٹن یا میجر کے دفاتر کے باہر بیٹھا رہتا تھا اب ان سے کہیں بڑے فوجی افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک ریاض کے تنخواہ دار ملازم ہیں۔
    حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ نون؛  جس کے چودھری نثار علی خان ملک  ریاض کے سب سے بڑے مخالف ہیں ،،،کے مطابق انہوں نے نو سابق جرنیلوں کو اپنا ملازم بنا رکھا ہے۔
    ملک  ریاض کے قریبی ساتھی ان کی ایک خوبی یا خامی یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک نظر میں اپنے ملنے والے کو پہچان لیتے ہیں  کہ ان سے ملنے والا کس سطح کا انسان ہے ؟ اس کا آئی کیو کیا ہے ؟ اس کا ویژن کس قدر ہے؟اور یہ کہ  کہ ان کا مخاطب کس درجے کا لالچی ہے اور وہ اسی کے مطابق اس سے ڈیل کرلیتے ہیں۔
    ملک ریاض ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت ہیں جن کے حیرت انگیز طور پر بیک وقت پاکستان کے موجودہ سابق اور مستقبل کے ممکنہ حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
    سنہ ننانوے میں ان پر نیب کے بے شمار مقدمات تھے لیکن ایک وقت آیا کہ وہ مشرف کے دوست بن گئے۔ صدر زرداری سے ان کی اسیری کے وقت میں کی گئی دوستی آج بھی ملک ریاض کے کام آرہی ہے۔ چودھری برادران کا کوئی کام ہو یا تحریک انصاف کے جلسے کے فنڈز درکار ہوں چلتی ہوا کا رخ پہچان جانے والے ملک ریاض پیچھے نہیں رہتے۔

    سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ جب پنجاب میں گورنر راج لگا تو پیپلز پارٹی کے حق میں ملک ریاض نوٹوں کے اٹیچی لے کر گورنر ہاؤس میں موجود رہے لیکن اس کے باوجود ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے مسلم لیگ نون کے میاں برادران سے بھی قریبی تعلقات بھی ہیں۔
    یہ بات اب پاکستانی میڈیا میں آچکی ہے کہ صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان معاہدہ بھوربن کروانے والی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ملک ریاض ہی تھے۔
    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک ریاض نے پاکستان کی مڈل کلاس کی ضروریات کو فوکس کیا اور ان کےلیے ایسی رہائشی سکیمیں بنائیں جو دیگر کے مقابلے میں بہت اعلیٰ معیار کی اور نسبتاً سستی ہیں۔
    وہ بے شمار لوگوں کی مالی امداد، غریبوں کے علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ بہت سے غریب بچے ان کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
    پاکستان کے مختلف شہروں اسلام آباد راولپنڈی ، لاہور کراچی فیصل آباد میں لوگوں کو مفت کھانا کھلانے کے لیے بحریہ  دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔ جس میں بلا امتیاز ہر ایک کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے یہ ایک بہت بڑی سعادت یا بہت بڑا کارنامہ ہے جو اب سے قبل پاکستان کے کسی دولت مند  کو حاصل نہ تھا 

1 comment: